۲۷ آبان ۱۴۰۳ |۱۵ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 17, 2024
امام زین العابدین

حوزہ/ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے رسالہ حقوق میں اللہ کے حق کے بعد نفس کا حق بیان فرمایا ہے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی |

امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: "وَ أَمَّا حَقُّ نَفْسِكَ عَلَيْكَ فَأَنْ تَسْتَوْفِيَہَا فِي طَاعَةِ اللَّہِ فَتُؤَدِّيَ إِلَى لِسَانِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى سَمْعِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى بَصَرِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى يَدِكَ حَقَّہَا وَ إِلَى رِجْلِكَ حَقَّہَا وَ إِلَى بَطْنِكَ حَقَّہُ وَ إِلَى فَرْجِكَ حَقَّہُ وَ تَسْتَعِينَ بِاللَّہِ عَلَى ذَلِكَ" تمہارے نفس کا تم پر یہ حق ہے کہ اسے مکمل طور سے اطاعت خدا میں مشغول کر دو اگر تم نے ایسا کیا تو گویا تم نے اپنی زبان کا حق، اپنی سماعت (کان) کا حق، اپنی بینائی (آنکھ) کا حق، ہاتھ، پیر، شکم اور زیر شکم کا حق ادا کر دیا اور (یاد رکھو کہ) ان حقوق کی ادائیگی میں اللہ سے مدد طلب کرتے رہو۔

قافلہ عابدین کی زینت، کاروان ساجدین کے سردار حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے مذکورہ چند فقرات میں رہتی دنیا تک حقیقی عبد بننے کی رہنمائی اور ہدایت فرمائی ہے۔ جناب ہابیل علیہ السلام کے قتل سے لے کر آج تک بلکہ قیامت تک سارے فتنہ و فساد، تمام خیانتوں اور جرائم کی بنیادی وجہ نفس انسانی کا بے لگام ہو جانا ہے۔ گناہ صغیرہ ہو یا گناہ کبیرہ اس کے ارتکاب کا بنیادی سبب نفس انسانی کا بندگی خدا کے حدود سے نکل جانا ہے۔ قرآنی آیت کی روشنی میں یہی نفس انسانی اعمال کا سرچشمہ ہے۔‌

" لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ" (سورہ بقرہ، آیت 284)

جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کے لئے ہے، چاہے تم اپنے نفس (دل) کی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ وہ سب کا محاسبہ کرے گا۔

امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام نے ارتکاب گناہ کی وجہ کے سلسلہ میں فرمایا: "ما مِن مَعصيَةِ اللّه ِ شَيءٌ إلاّ يَأتي في شَهوَةٍ ، فرَحِمَ اللّه ُ امرأً نَزَعَ عن شَهوَتِهِ ، و قَمَعَ هَوى نَفسِهِ ؛ فإنّ هذهِ النَّفسَ أبعَدُ شَيءٍ مَنزِعا ، و إنّها لا تَزالُ تَنزِعُ إلى مَعصيَةٍ في هَوىً" اللہ کی نافرمانی نہیں ہوتی جب تک کہ شہوت و خواہشات نہ ہوں، پس اللہ اس بندے پر رحمت نازل کرے جو اپنی شہوات و خواہشات کو ترک کرے اور اپنے نفس کو دبائے، کیونکہ یہ نفس شہوات و خواہشات کو مشکل سے روکتا ہے اور ہمیشہ خواہشات کے سبب نافرمانی کی جانب مائل ہوتا ہے۔

امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی دیگر احادیث میں اگر ہم غور کریں تو امیر بیان نے نفس کو جہاں قیمتی گوہر سے تعبیر کیا ہے وہیں آگاہ بھی کیا کہ جو اس پر قابو پا لے گا وہ بلند مرتبہ ہوگا اور جو قابو نہ کر سکے گا وہ ذلیل و خوار ہوگا ( غرر الحکم، 3494) کبھی فرمایا کہ روئے زمین پر اللہ تعالی کے نزدیک اکرم (سب سے زیادہ کرامت والا) وہ نفس ہے جو اس کا اطاعت گزار ہو۔ (غرر الحکم، 7530)

امام الکلام امیر المومنین علیہ السلام کی احادیث کی روشنی میں جب ہم مولا امام سجاد علیہ السلام کے کلام پر نظر کریں گے تو ہمارے لئے سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بطور نعمت نفس عطا کیا ہے، ہر نعمت کا حساب ہوگا تو اس نفس کا بھی حساب ہوگا، دوسری تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ اس نعمت کے سلسلہ میں بھی سوال ہوگا کہ انسان نے اس کا حق ادا کیا یا نہیں۔‌ بلکہ بدرجہ اولی سوال ہوگا کہ انسان نے نفس کا حق ادا کیا یا نہیں کیونکہ اگر کسی نے یہ حق ادا کیا تو وہ گناہوں کی وادی ظلمت میں نہیں بھٹکے گا بلکہ وہ اطاعت کے نورانی قلعہ میں محفوظ ہو گا۔

نفس کے حق کی ادائیگی صرف ایک حق کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ زبان، کان، آنکھ، ہاتھ، پیر، شکم اور زیر شکم کے حقوق کی ادائیگی ہے۔

اس سے قبل کے ہم امام زین العابدین علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں مذکورہ حقوق پر نظر کریں اس نکتہ کی جانب بھی توجہ دینا ضروری ہے کہ جس کی جانب اللہ کے صادق و امین پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متوجہ فرمایا ہے۔

"نَفسُ ابنِ آدَمَ شابَّةٌ و لَو التَقَت تَرقُوَتاهُ مِن الكِبَرِ ، إلاّ مَنِ امتَحَنَ اللّه ُ قَلبَهُ لِلتَّقوى، و قَليلٌ ما هُم" (کنز العمال، 5671)‌ فرزند آدم کا نفس جوان ہے چاہے بڑھاپے کی وجہ سے اس کی (باریک نسبتاً بلند) ہڈیاں مل جائیں، سوائے ان کے کہ جن کے دل کا خدا نے تقوی کے ذریعہ امتحان لیا ہے اور وہ بہت کم ہیں۔

اسی طرح حضور نے فرمایا: "بوڑھا طلب دنیا میں مثل جوان ہے۔" (تنبیہ الخواطر، جلد 1، صفحہ 278) نیز یہ بھی فرمایا: " قَلبُ الشَّيخِ شابٌّ في حُبِّ اثنتَينِ : في حُبِّ الحَياةِ ، و كَثرَةِ المالِ" (سنن ابن ماجہ، جلد 2، صفحہ 1415، حدیث 4233) بوڑھے کا دل دو چیزوں کی محبت میں جوان ہے، زندگی اور کثرت مال کی محبت میں۔‌

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ نفس پر کنٹرول نہ صرف نوجوانی اور جوانی میں ضروری ہے بلکہ بڑھاپے میں بھی ضروری ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ نفس کے حق کی ادائیگی پر توجہ جس طرح نوجوانی اور جوانی میں لازم ہے اسی طرح بڑھاپے میں بھی لازم ہے۔

نفس کے حق کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام نے زبان، کان، آنکھ، ہاتھ، پیر، شکم اور زیر شکم کے حقوق بیان فرمائے ہیں، اگرچہ امام عالی مقام نے ان حقوق پر طولانی گفتگو نہیں کی ہے لیکن ذہن نشین رہے کہ نہ صرف امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے کلام کی خصوصیت "کلام الامام امام الکلام" ہے بلکہ 12 ائمہ معصومین علیہم السلام میں سے ہر ایک کا کلام "امام الکلام" ہے۔ یعنی ایسا جامع و مانع ہے کہ جس کے بعد کسی کلام کی ضرورت نہیں ہے۔

اگر ہم رسالہ حقوق میں بیان مذکورہ حقوق پر غور کریں تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا کہ مذکورہ حقوق اسی وقت ادا ہوں گے جب ہم ان کے سلسلہ میں واجب اور مستحبات پر عمل کریں اور حرام اور مکروہ سے پرہیز کریں۔

اللہ نے زبان دی ہے تو بولیں لیکن وہی جو اللہ چاہتا ہے، اللہ نے کان دیا ہے تو سنیں لیکن وہی جو اللہ چاہتا ہے، اللہ نے آنکھیں دی ہیں تو دیکھیں لیکن وہی جو اللہ چاہتا ہے، اللہ نے پیر دیا ہے تو چلیں لیکن ادھر ہی جدھر اللہ چاہتا ہے، اللہ نے ہاتھ دیا ہے تو ہاتھ بڑھائیں لیکن ادھر ہی جدھر اللہ نے حلال کیا ہے، اللہ نے شکم دیا ہے تو اسے پُر کریں لیکن اس سے جسے اللہ نے حلال قرار دیا ہے، اسی طرح شہوت میں بھی حکم الہی پیش نظر رہے جیسا کہ سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں ارشاد ہو رہا ہے "یقینا صاحبان ایمان کامیاب ہو گئے، جو اپنی نمازوں میں خاشع ہیں، اور لغو اور بے ہودو باتوں سے پرہیز کرنے والے ہیں، اور زکوۃ ادا کرنے والے ہیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں علاوہ اپنی بیویوں اور ان عورتوں کے جو ان کی کنیزی (ملک یمین) میں ہیں کہ ان کے معاملہ میں ان پر کوئی الزام آنے والا نہیں ہے۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے ان حقوق کے بیان کے ذریعہ سے حقیقی عبد کے خصائص و امتیازات بیان فرما دیے کہ اگر کوئی اللہ کا حقیقی عبد اور بندہ بننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ ان حقوق کی ادائیگی کرے اور جو ان حقوق کی ادائیگی کرے گا تو اس کے بعد اس کی عبادتیں چاہے نماز ہوں یا روزہ، حج ہو یا صدقہ یا قربانی یا دیگر تمام حقوق کی ادائیگی اس کے لئے آسان ہوگی۔

لیکن توجہ رہے کہ ان حقوق کی ادائیگی میں جہاں انسان کو خود خیال رکھنا ہے وہیں اللہ سے مدد بھی مانگنا ہے کیونکہ بغیر امداد پروردگار کے یہ توفیق شامل حال نہیں ہو سکتی۔

خدایا! ہمیں ادائیگی حقوق کی توفیق کرامت فرما کیونکہ تیری عطا کے بغیر یہ ادائیگی ممکن نہیں ہے۔‌

تبصرہ ارسال

You are replying to: .